مستند تاریخ اور برآمد ہونے والے بے شمار قدیم آثار و نوادرات کی رو سے خیبرپختون خوا کی زمین پر ( 20 لاکھ سال قبل از مسیح) سے لے کر برطانوی دور حکومت تک کئی ثقافتوں اور تہذیبوں نے جنم لیا ہے۔ ان تہذیبوں میں سب سے مشہور گندھارا تہذیب ہے جس کے برآمد ہونے والے نمونے آج بھی ملک کے اندر باالخصوص پشاورکے عجائب گھر میں موجود ہیں۔ گندھارا وادی پشاور کا پرانا نام ہے جو دریائے سندھ کے مغرب اور دریائے کابل کے شمال میں پشاور سے لے کر سوات، دیر اور بامیان تک پھیلا ہوا تھا۔ بعد میں ٹیکسلا کا علاقہ بھی اس کے زیر اثر رہا۔ آریاؤں کی مقدس کتاب ’’رگ وید ‘‘ اور چھٹی صدی قبل از مسیح میں لکھے گیے دارا اول کے سنگی کتبوں میں بھی وادی گندھارا اور اخمینی حکومت کا ذکر موجود ہے۔ پشکلاوتی (بالاحصار چارسدہ) چھٹی صدی قبل از مسیح سے پہلی صدی تک گندھارا کا پہلا دارالحکومت رہا جس پر 327 قبل از مسیح میں سکندر یونانی نے حملہ کیا تھا۔
فغل ربی راھی لکھتے ہیں کہ "سوات میں گندھارا آرٹ بُدھّا کے مختلف مجسمّوں، کندہ کاریوں اور مختلف نقش و نگار کی صورت میں فروزاں نظر آتا ہے۔ گویا سنگ تراشی، مجسمہ سازی، تصویرکشی اور مختلف نقوش پر مشتمل کندہ کاری کا جو فن وجود میں آیا ہے، اُسے گندھارا آرٹ کا نام دیا گیا ہے۔ گندھارا نہ صرف فن کا نام ہے بلکہ یہ ایک وسیع علاقے اور ایک مکمل تہذیب کا آئینہ دار ہے۔ یہاں گندھارا آرٹ پہلی صدی عیسوی سے لے کر ساتویں صدی عیسوی تک عروج پر رہا۔”
وہ مذید لکھتے ہیں کہ وادئ سوات کوبھی گندھارا کے صدر مقام کے طور پر یاد کیا جاتا ہے ۔کیوں کہ سوات میں بُدھ مت اور گندھارا تہذیب کے قدیم اثرات کی بہتات ہے۔ سوات میں برآمد ہونے والی گندھارا تہذیب اور گندھارا آرٹ کے بعض نادر نمونوں سے یہ اندازہ لگتا ہے کہ سوات میں گندھارا تہذیب کوبڑا عروج حاصل تھا اور اس تہذیب کے اثرات یہاں اس قدر زیادہ ملتے ہیں کہ سوات پر گندھارا آرٹ کی ایک بڑی فیکٹری کا گمان گزرتا ہے۔ جہاں بہترین نقش و نگار کی حامل کندہ کاری اور نفیس سنگ تراشی کے نمونے سلطنت گندھارا کے دیگر علاقوں میں بھی سپلائی کئے جاتے تھے۔ سوات میں جہان آباد میں بُدّھا کا قد آور خوب صورت مجسمہ گندھارا آرٹ کا ایک بہترین اور نایاب نمونہ ہے۔ (تفصیل کے لیے لفظونہ ڈاٹ کام ملاحضہ کیجیے)
گندھارا آرٹ کے شاہ کار خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں مدفون ہیں جیسا کہ مردان اور سوات۔ اس کے علاوہ ضلع صوابی کے مشہور تاریخی گاؤں لاہور، جو اب ضلع صوابی کی تحصیل بھی ہے اور جہاں سنسکرت زبان کے پہلے قواعد دان’’ پانینی‘‘ بھی پیدا ہوئے تھے، میں ان کے نام سے ایک جگہ’’پنے ونڈ‘‘ اور بدھ مت کے نام سے ’’بدھو ونڈ‘‘ آج بھی موجود ہیں۔ اسی طرح لاہور سے دو چار کلومیٹر کے فاصلے پر گاؤں’’مانکئی، ’’ جلبئی‘‘ اور ’’جلسئی‘‘ کے مقام پر بھی’’ سولئی ڈھیری‘‘، ’’مالادر‘‘، ’’بھاگو‘‘ اور’’رتہ پنڈ ڈھیری‘‘ ایسے مقامات ہیں جہاں سے قدیم تاریخی آثار کے علاوہ گندھارا تہذیب کے نادر نمونے دریافت ہوسکتے ہیں۔
I am very happy to find this just now i join let me watch want to know about Swat histry I will share with my friends
Thanks for this
Maqsood ali